اراولی پہاڑی سلسلہ کی نئی تعریف نے ماحولیاتی کارکنان کو فکر میں ڈال دیا ہے۔ فکر مند لوگوں کی حمایت کانگریس بھی بھرپور طریقے سے کر رہی ہے اور پارٹی نے اراولی کی حفاظت کے لیے شروع ہوئی مہم کو مضبوط کر رہی ہے۔ اس درمیان کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ جاری کر فاریسٹ سروے آف انڈیا کے ذریعہ پیش کردہ کچھ ڈاٹا کو سامنے رکھا ہے۔मोदी सरकार द्वारा अरावली की जो नई परिभाषा दी गई है, वह तमाम विशेषज्ञों की राय के खिलाफ है, साथ ही खतरनाक और विनाशकारी भी है।फॉरेस्ट सर्वे ऑफ इंडिया (FSI) के प्रामाणिक आँकड़ों के अनुसार, 20 मीटर से अधिक ऊँचाई वाली अरावली पहाड़ियों में से केवल 8.7% ही 100 मीटर से अधिक ऊँची हैं।…— Jairam Ramesh (@Jairam_Ramesh) December 25, 2025جئے رام رمیش نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’مودی حکومت کے ذریعہ اراولی کی جو نئی تعریف پیش کی گئی ہے، وہ تمام ماہرین کی رائے کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی یہ خطرناک اور تباہناک بھی ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’فاریسٹ سروے آف انڈیا (ایف ایس آئی) کے مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق 20 میٹر سے زیادہ اونچائی والی اراولی پہاڑیوں میں سے محض 8.7 فیصد ہی 100 میٹر سے زیادہ اونچی ہیں۔ اگر ایف ایس آئی کے ذریعہ نشان زد سبھی اراولی پہاڑیوں کو دیکھا جائے، تو ان میں سے ایک فیصد بھی 100 میٹر سے زیادہ اونچائی والی نہیں ہیں۔‘‘اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کانگریس لیڈر نے لکھا ہے کہ ’’ایف ایس آئی کا نظریہ صاف ہے، اور وہ پوری طرح مناسب بھی ہے، کہ اونچائی کی بنیاد پر سرحدیں طے کرنا مشتبہ ہے، اور اونچائی کی پروا کیے بغیر اراولی کے مکمل پہاڑی سلسلہ کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔‘‘ جئے رام رمیش کا کہنا ہے کہ رقبہ کے حساب سے دیکھا جائے تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ نئی تعریف کے تحت اراولی کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ غیر محفوظ ہو جائے گا اور کانکنی، رئیل اسٹیٹ و دیگر سرگرمیوں کے لیے کھولا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ماحولیات کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔اراولی کی نئی تعریف کو ناقابل قبول ٹھہراتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا کہ ماحولیات کے ساتھ کھلواڑ کرنا مناسب نہیں ہے اور حکومت کو ماہر ماحولیات کی فکر کو سمجھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ (ممکنہ تباہی) ایک سچائی ہے، جس پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ ماحولیات پر مودی حکومت کے منصوبہ بند حملے کی ایک مثال ہے، جس میں آلودگی کے پیمانوں کو نرم کرنا، ماحولیات و جنگلاتی قوانین کو کمزور کرنا، نیشنل گرین ٹریبونل اور ماحولیاتی نظام سے جڑے دیگر اداروں کو غیر فعال کرنا شامل ہے۔‘‘ وزیر اعظم مودی کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’ماحولیاتی فکر سے متعلق وزیر اعظم کے عالمی پلیٹ فارم پر دی جانے والی تقریروں اور ملک کے اندر زمین پر کیے جا رہے کاموں کے درمیان کوئی تال میل دکھائی نہیں دیتا۔‘‘