اراولی کی نئی تعریف اور مائننگ پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس، پیر کو چیف جسٹس کی بنچ میں سماعت

Wait 5 sec.

اراولی پہاڑی سلسلے کی نئی تعریف، اس کے وجود اور وہاں جاری مائننگ سرگرمیوں سے متعلق معاملہ پیر، 29 دسمبر کو ایک فیصلہ کن موڑ لے سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس حساس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اراولی کے تحفظ کے لیے سرگرم ماحولیاتی کارکنوں اور سماجی تنظیموں کے لیے یہ پیش رفت امید کی ایک مضبوط کرن سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں ’100 میٹر‘ کی نئی تعریف نے شدید تنازعہ کو جنم دیا ہے۔سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری فہرستِ سماعت کے مطابق اس معاملے کی سماعت جسٹس سوریہ کانت کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گی۔ بنچ میں جسٹس جے کے مہیشوری اور جسٹس اے جی مسیح بھی شامل ہوں گے۔ کیس کا عنوان ’ڈیفینیشن آف اراولی ہلز اینڈ ریجنز اینڈ اینسلری ایشوز‘ یعنی ’اراولی پہاڑیوں اور پہاڑی سلسلے کی تعریف اور اس سے جڑے دیگر امور‘ رکھا گیا ہے۔یہ تنازعہ اس نئی تعریف کے گرد گھومتا ہے جو مرکز نے سپریم کورٹ میں پیش کی تھی، جس کے مطابق صرف ان پہاڑیوں یا ارضی ساختوں کو اراولی مانا جائے جن کی اونچائی مقامی سطحِ زمین سے 100 میٹر یا اس سے زیادہ ہو۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر یہ تعریف قبول کر لی گئی تو اراولی کے نچلے حصے، چھوٹی پہاڑیاں اور رِجز قانونی تحفظ سے باہر ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں بے روک ٹوک مائننگ اور تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہو سکتی ہیں۔اراولی کو بچانے کے لیے ’ستیاگرہ‘ شروع کرنے کا اعلان، انڈین یوتھ کانگریس نے پوسٹر کیا لانچماہرین نے عدالت کی توجہ دلائی ہے کہ اراولی کو محض اونچائی کے پیمانے سے نہیں، بلکہ اس کے پورے ماحولیاتی نظام اور حیاتیاتی تنوع کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ مرکز نے حالیہ عرصے میں اراولی میں نئی مائننگ لیز پر مکمل پابندی عائد کی ہے، تاہم پرانی اور جاری کانوں کے مستقبل پر اب بھی سوالیہ نشان قائم ہے۔ اسی پس منظر میں پیر کی سماعت سے یہ طے ہونے کی توقع ہے کہ مستقبل میں اراولی کا کتنا حصہ حقیقی معنوں میں تحفظ یافتہ رہے گا۔راجستھان کانگریس نے اراولی اور منریگا معاملہ پر تحریک چلانے کا کیا اعلان، 27 دسمبر سے شروع ہوگی عوامی بیداری مہمماحولیاتی ماہرین کے مطابق اراولی پہاڑی سلسلہ محض پہاڑ نہیں بلکہ شمالی ہندوستان کے لیے قدرتی ڈھال ہے۔ مطالعات بتاتے ہیں کہ اراولی تھار ریگستان سے اٹھنے والی ریتلی آندھیوں کو دہلی اور ہریانہ کی سمت بڑھنے سے روکتا ہے، زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے اور دہلی-این سی آر کی فضا کو صاف رکھنے میں ’گرین لنگس‘ کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی سماعت نہ صرف قانونی بلکہ ماحولیاتی مستقبل کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔