بھارت میں بڑی احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان

Wait 5 sec.

نئی دہلی (27 دسمبر 2025): انڈین یوتھ کانگریس نے پہاڑی سلسلہ کے تحفظ کے لیے ’’اراولی ستیاگرہ یاترا‘‘ نامی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں انڈین یوتھ کانگریس کے قومی صدر اودے بھانو چب نے پریس کانفرنس کے دوران یاترا کا باضابطہ پوسٹر جاری کیا اور تحریک کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔اراولی پہاڑی سلسلے کی سپریم کورٹ کی جانب سے نئی تعریف کے بعد شمالی بھارت کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔اراولی کیا ہے؟واضح رہے کہ اراولی کا شمار دنیا کے قدیم ترین پہاڑی سلسلوں میں ہوتا ہے جو راجستھان، ہریانہ، گجرات اور دارالحکومت دہلی تک پھیلا ہوا ہے۔گروگرام، اودھے پور اور دیگر شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے شروع ہوچکے ہیں، جن میں مقامی باشندے، کسان، ماحولیاتی کارکن، وکلا اور بعض سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔"پیپل فار اراولی” گروپ کی بانی رکن نیلم آہلو والیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ نئی تعریف اراولی کے اس بنیادی کردار کو کمزور کرسکتی ہے جو شمال مغربی بھارت میں ریگستانی پھیلاؤ کو روکنے، زیرِ زمین پانی کو ریچارج کرنے اور لوگوں کے روزگار کے تحفظ میں ادا کرتی ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر اراولی پہاڑی سلسلے کو ختم کرنے کیخلاف عوام سراپا احتجاج ہیں۔رپورٹ کے مطابق اودھے بھانو چب نے کہا کہ ’’اراولی ستیاگرہ یاترا‘‘ 7 سے 20 جنوری تک جاری رہے گی جو گجرات سے شروع ہو کر راجستھان اور ہریانہ سے گزرتے ہوئے دہلی میں اختتام پذیر ہوگی۔ان کے مطابق یہ یاترا ایک ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہوگی اور اس کا مقصد صرف فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ اراولی پہاڑی سلسلے کو بچانے کے عزم کو عوام تک پہنچانا ہے۔سپریم کورٹ کی جانب سے نئی تعریف کے مطابق صرف وہ پہاڑیاں اراولی کا حصہ سمجھی جائیں گی جو اپنے اردگرد کے علاقے سے کم از کم 100 میٹر بلند ہوں، جس پر ماہرین ماحولیات اور مقامی آبادی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔اودھے بھانو چب نے کہا کہ اراولی دراصل درخت، پانی، پہاڑ اور آنے والی نسلوں کے مستقبل سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، جس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔پریس کانفرنس کے دوران انڈین یوتھ کانگریس نے یاترا کے مطالبات بھی واضح کیے۔ اودے بھانو چب کے مطابق تنظیم کا مطالبہ ہے کہ اراولی رینج میں سو میٹر کی حد کو ختم کیا جائے، اسے کرٹیکل ایکولوجیکل زون قرار دیا جائے، سپریم کورٹ کے احکامات پر نظرثانی کی جائے، حکومت اپنی موجودہ تجویز واپس لے اور اراولی رینج میں کان کنی پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔مرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے خود سپریم کورٹ کو یہ تجویز دی تھی کہ سو میٹر سے کم اونچائی والے پہاڑوں کو اراولی رینج سے خارج کردیا جائے۔ان کا الزام تھا کہ پہلے سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی کان کنی کی نگرانی کرتی تھی، جسے مودی حکومت نے تحلیل کردیا اور بعد ازاں وزارتِ ماحولیات کے ذریعے یہ تجویز بھیجی گئی۔رپورٹ کے مطابق اودے بھانو چب نے دعویٰ کیا کہ اب تک اراولی علاقے میں 50 نئی کان کنی منصوبوں کی منظوری دی جا چکی ہے، حالانکہ 2010 میں سپریم کورٹ نے ایسی کان کنی کو توسیع دینے سے روک دیا تھا۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ بعد میں بی جے پی کی راجستھان حکومت نے فیس وصول کرکے پہلے سے بند کانکنی کو دوبارہ اجازت دے دی۔انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے واضح کیا ہے کہ نئی کان کنی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب حکومت باقاعدہ تجویز پیش کرے اور یہ بھی کہ اراولی رینج میں صرف اسی صورت کانکنی کی اجازت دی جا سکتی ہے جب وہاں ’ریئر ارتھ میٹل‘ پائے جائیں۔اس موقع پر انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ وسائل بھی مودی حکومت کے قریبی صنعتکاروں کے حوالے کردیے جائیں گے؟آخر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اودے بھانو چب نے کہا کہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے انڈین یوتھ کانگریس انصاف کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی اور اپنے مطالبات کی منظوری تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔