غیر فعال کھاتوں کا پیسہ مالکان تک پہنچانے کے لیے پورٹل کا مطالبہ، سپریم کورٹ نے مرکز کو بھیجا نوٹس

Wait 5 sec.

سپریم کورٹ نے غیر فعال کھاتوں کے پیسوں کو مالکان تک پہنچانے کے لیے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے 3.5 لاکھ کروڑ روپے کی بے نامی جائیدادوں کو جن میں غیر فعال بینک کھاتوں، نامعلوم منافع، پروویڈنٹ فنڈ اور بیمہ کی رقم شامل ہے، اس کی شناخت کر لی ہے۔ ساتھ ہی اس کے حل اور انہیں ان کے اصل مالکان کو لوٹانے کے لیے بڑے پیمانے پر قانونی ڈھانچہ تیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے اس سے متعلق عرضی پر نوٹس جاری کیا ہے۔ عرضی گزار کی دلیل ہے کہ سینٹرلائزڈ نظام کی عدم موجودگی آرٹیکل 14، 19(1)(اے) 21 اور 300اے کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے شہریوں خاص طور سے غریبوں اور بزرگوں کو ان کی اصل جائیداد سے محروم کیا جا رہا ہے۔مفاد عامہ کی ایک عرضی نے تمام مالیاتی اثاثوں کی فہرست کے لیے ایک مرکزی پورٹل بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبہ کے متعلق مفاد عامہ کی عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکز کو نوٹس بھیجا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا ہے۔ اس معاملہ کی سماعت جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے کیا ہے۔ حکومت سے اس کے لیے 4 ہفتوں میں جواب طلب کیا گیا ہے۔ عرضی میں آر بی آئی، آئی آر ڈی اے آئی، نیشنل سیونگ انسٹی ٹیوٹ یا پنشن فنڈ ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے زیر انتظام اداروں میں رکھے گئے تمام مالیاتی اثاثوں کی فہرست تک رسائی کے لیے ایک مرکزی پورٹل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔عرضی میں بتایا گیا ہے کہ بکھرے ہوئے کھاتوں، اندراج کی تفصیلات کی کمی اور یونیفائیڈ رجسٹر کی کمی کے باعث کروڑوں شہریوں کے پیسے پہنچ سے باہر ہیں۔ رواں سال جنوری میں عرضی گزار نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ عدالت نے اس معاملے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں عدالتی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ عرضی گزار کو متعلقہ افسران سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد عرضی گزار گوئل نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور دلیل دیا کہ بینکوں، بیمہ کمپنیوں، میوچل فنڈز اور پنشن منصوبوں میں شہریوں کی خطیر رقم پہنچ سے باہر ہے۔ سینئر وکیل مکتا گپتا جو گوئل کی جانب سے پیش ہوئیں، نے عدالت کو بتایا کہ دہلی ہائی کورٹ نے معاملہ کی سنگینی کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن اسے افسران پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ پالیسی پر غور و خوض کریں۔ حالانکہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا اور لاکھوں لوگوں کا پیسہ اب بھی پھنسا ہوا ہے۔