غزہ امن منصوبے کے اہم نکات

Wait 5 sec.

واشنگٹن (30 ستمبر 2025): اس تحریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ملاقات کے بعد سامنے آنے والے غزہ امن منصوبے کے اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے ڈونلڈ ٹرمپ اور نتین یاہو کی ملاقات کے بعد 20 نکاتی غزہ امن منصوبہ جاری کیا جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جاری دو سالہ جنگ کو فوری روکنا ہے۔اگر دونوں فریق (اسرائیل اور حماس) منصوبے کو قبول کر لیں تو جنگ فوری طور پر ختم ہو جائے گی، غزہ میں موجود تمام یرغمالیوں (زندہ اور مردہ) کو 72 گھنٹوں کے اندر فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا، غزہ پٹی کو عارضی طور پر ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹک حکومت کے زیر انتظام چلایا جائے گا جس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا اور اسرائیل غزہ کو ضم نہیں کرے گا۔غزہ امن منصوبے کے اہم نکات ملاحظہ کیجیے:غزہ کی تعمیر نو اس کے عوام کے فائدے کیلیے کی جائے گی جو جنگ کے دوران کافی تکالیف اٹھا چکے ہیں۔اگر دونوں فریق اس تجویز پر متفق ہو جاتے ہیں تو جنگ فوری طور پر ختم ہو جائے گی، اسرائیلی فوج یرغمالیوں کی رہائی کیلیے متفقہ لائن تک غزہ سے نکل جائے گی، اس دوران تمام فوجی کارروائیاں معطل رہیں گی۔فریقین کی جانب سے معاہدے کو قبول کرنے کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام اسرائیلی یرغمالی (زندہ اور مردہ) واپس کر دیے جائیں گے۔اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 عمر قید کے قیدیوں سمیت 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے 1,700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بعد حماس کے وہ ارکان جو پرامن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ہتھیاروں ڈالنے کا عہد کریں گے انہیں معافی دی جائے گی، اگر وہ غزہ چھوڑنا چاہیں گے تو انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔اس معاہدے کی منظوری پر غزہ کی پٹی میں فوری طور پر مکمل امداد بھیجی جائے گی۔غزہ پٹی میں امداد کی تقسیم اور داخلے میں دونوں فریقوں کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی، یہ اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں، ریڈ کریسنٹ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہوگا جو کسی بھی فریق سے وابستہ نہیں ہیں۔غزہ کو ایک عارضی عبوری فلسطینی ٹیکنوکریٹک اور غیر سیاسی کمیٹی کے تحت چلایا جائے گا جو غزہ کے عوام کیلیے روزمرہ کی خدمات اور انتظامات کی ذمہ دار ہوگی۔کمیٹی میں اہل فلسطینی اور بین الاقوامی ماہرین شامل ہوں گے جن کی نگرانی نئے بین الاقوامی عبوری ادارے ’بورڈ آف پیس‘ کے ذریعے ہوگی جس کی سربراہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے اور دیگر ارکان اور سربراہان مملکت کا اعلان کیا جائے گا جن میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہیں۔یہ کمیٹی غزہ کی تعمیر نو کیلیے فریم ورک تیار کرے گا اور اس کی فنڈنگ سنبھالے گا جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی پروگرام کو مکمل نہ کر لے۔کسی کو بھی غزہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا تاہم جو چھوڑنا چاہیں وہ آزادانہ طور پر جا سکیں گے اور واپس آ سکیں گے۔ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا جس کیلیے ترجیحی ٹیرف اور رسائی کی شرحیں شریک ممالک کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے طے کی جائیں گی۔غزہ کی تعمیر نو اور توانائی بحال کرنے کیلیے ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتصادی ترقیاتی منصوبہ بنایا جائے گا جس کیلیے مشرق وسطیٰ کے ماہرین کا ایک پینل تشکیل دیا جائے گا۔حماس اور دیگر دھڑوں نے غزہ کی گورننس میں براہ راست، بالواسطہ یا کسی بھی شکل میں کوئی کردار نہ رکھنے پر اتفاق کرنا ہوگا۔ تمام فوجی ڈھانچے بشمول سرنگیں اور ہتھیاروں کی پیداوار کی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے گا اور دوبارہ تعمیر نہیں کیا جائے گا۔علاقائی شراکت داروں کی طرف سے ضمانت دی جائے گی کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کریں گے اور نیا غزہ اپنے پڑوسیوں یا اپنے عوام کیلیے خطرہ نہیں بنے گا۔امریکا عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) تیار کرے گا جو فوری طور پر غزہ میں تعینات کی جائے گی۔اسرائیل غزہ پر قبضہ یا اسے ضم نہیں کرے گا۔ جیسے جیسے آئی ایس ایف کنٹرول اور استحکام قائم کرے گی اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کا انخلا ہوگا۔