غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے واضح کیا ہے کہ تحریک کبھی بھی کسی معاہدے کی راہ میں رکاوٹ نہیں رہی، بلکہ ہر موقع پر مثبت اور لچکدار رویہ اپنایا ہے۔حماس کے مطابق دنیا جانتی ہے کہ اصل رکاوٹ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہیں جو تمام ثالثی کوششوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو نے نہ صرف جنوری کے معاہدے کو سبوتاژ کیا بلکہ ’’ویٹکوف‘‘ کی تجویز، جسے حماس نے قبول کیا تھا، کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوحا میں مذاکراتی اجلاس پر بمباری کی جہاں تحریک کا وفد صدر ٹرمپ کی تازہ تجویز پر غور کر رہا تھا۔حماس نے امریکی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو ترجیح دے، اور اسرائیلی حکومت کو نسل کشی، جبری بے دخلی اور نسلی تطہیر جیسے جرائم سے باز رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ساتھ ہی امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس وحشیانہ جنگ پر اپنی سیاسی و عسکری سرپرستی کا خاتمہ کرے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں اب جنگ بندی ہو جانی چاہیے پھر کہتا ہوں فلسطینی ریاست میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ فلسطینی ریاست تسلیم کرنا حماس کے لیے ایک تحفہ ہو گا حماس کو اب یرغمالیوں کو رہا کرنا چاہیے، حماس بارہا امن کی تجاویز مسترد کر چکی ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں غزہ میں جنگ کو فوری طور پر روکنا ہو گا، ہمیں اسے مکمل کرنا ہے ہمیں امن کے لیے مذاکرات کرنا ہوں گے ہمیں یرغمالیوں کو واپس لانا ہے ہم تمام 20 یرغمالی واپس چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب انہیں واپس لانا ہوگا ہم دراصل 38 لاشیں بھی واپس چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے یہ بھی استدلال کیا کہ حماس نے "امن کی معقول پیشکش کو بار بار مسترد کیا ہے۔امریکی صدر نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران متعدد مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کے لیے ایک "انعام” ہے۔