وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں سیشن میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے عالمی اور علاقائی معاملوں پر ہندوستان کا رخ پیش کیا۔ انہوں نے دہشت گردی پر پاکستان کے کردار، پہلگام حملہ، دہشت گردوں کی مالی مدد اور ان کی عوامی طور پر ستائش کیے جانے کی مذمت کی۔جے شنکر نے سلامتی کونسل میں مستقل اور عارضی رکنیت کی توسیع اور کونسل کو زیادہ نمائندگان سے پُر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پائیدار ترقی، آب و ہوا تبدیلی، تجارت اور فوڈ سیکوریٹی پر ہندوستان کی ترجیحات کا ذکر کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انڈسٹریل اسکیل پر دہشت گردی آپریٹ ہو رہی ہے۔جے شنکر نے کہا، ’’اتار چڑھاؤ بھرے وقت میں بحران کے دور میں آگے بڑھنا ضروری ہے۔ اس معاملے میں ہندوستان خاص طور سے اپنے آس پاس کے علاقوں میں تیار رہا ہے، چاہے وہ مالیات ہو، خوراک، کھاد یا ایندھن، ہم نے اپنے پڑوسیوں کی فوری ضرورتوں کا جواب دیا ہے۔‘‘وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں انڈیا کو ’بھارت‘ کے طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’جب ہم اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں خطروں کا مضبوطی سے سامنا بھی کرنا چاہیے اور دہشت گردی سے نپٹنا خصوصی ترجیح ہے۔‘‘انہوں نے کہا، ’’ایک غیر جانبدار رپورٹ کارڈ یہ دکھائے گا کہ اقوام متحدہ بحران کی حالت میں ہے۔ جب امن خطرے میں ہے، جب ترقی وسائل کی کمی کی وجہ سے متاثر ہے، جب دہشت گردی کی وجہ سے حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تب بھی اقوام متحدہ جمے ہوئے رہتا ہے، جیسے جیسے اس کی اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے، کثیرالفریق (multilateralism) پر اعتماد بھی کم ہوتا ہے...‘‘جے شنکر نے جنرل اسمبلی میں آگے کہا کہ ہندوستان ’ٹیرف عدم استحکام اور غیر یقینی بازار پہنچ‘ دیکھ رہا ہے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسیاں نافذ ہوئی ہیں۔جے شنکر نے کہا کہ ہندوستان نے آزادی کے بعد سے ہی اس چیلنج کا سامنا کیا ہے۔ ہندوستان کا پڑوسی ملک عالمی دہشت گردی کا مرکز رہا ہے۔ دہائیوں سے بڑے دہشت گردانہ حملوں کے نشان اسی ملک تک جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں اس کے کئی شہری شامل ہیں۔ اس کی تازہ مثال اس سال اپریل میں پہلگام میں بے قصور سیاحوں کا قتل ہے۔ ہندوستان نے اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے اپنے حقوق کا استعمال کیا اور ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ اور قصوواروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔جے شنکر نے مزید کہا کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ نسل پرستی، تشدد، عدم برداشت اور خوف کو جوڑتی ہے۔ یہ ایک ساجھا خطرہ ہے۔ اس لیے بین الاقوامی تعاون مزید مضبوط ہونا چاہیے۔ جب کوئی ملک کھل کر دہشت گردی کو ریاستی پالیسی اعلان کرتا ہے، جب دہشت گرد بڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں اور انہیں عوامی طور سے نوازا جاتا ہے ہے تو ایسی حرکتوں کی بلاامتیاز مذمت ہونی چاہیے۔