بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع کانپور میں میلاد النبیؐ کے جلوس میں ’آئی لَو محمدؐ‘ کے بینر آویزاں کرنے پر انتہا پسندوں نے مسلمانوں پر تشدد کرتے ہوئے ہنگامہ برپا کردیا۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس نے انتہا پسندوں کے بجائے مسلمانوں کے خلاف ہی مقدمات درج کیے اور متعدد مسلمانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔رپورٹس کے مطابق پولیس کے اس اقدام کے خلاف بریلی میں ایک پرامن احتجاج شروع کیا گیا جس پر پولیس نے مسلمانوں پر لاٹھی چارج شروع کر دیا، جس کے بعد مظاہرہ پرتشدد ہوگیا اور پتھراؤ سے 10 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔رائے بریلی میں ’آئی لَو محمدؐ‘ ریلی نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ ریلی اعلیٰ حضرت درگاہ اور اتحاد ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان کے گھر کے باہر سے نکالی گئی جس پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور مظاہرین پر تشدد شروع کردیا۔مذکورہ معاملے کے بعد بھارت کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے۔واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے، رواں ماہ مودی سرکار نے گجرات کے شہر احمد آباد میں سڑک کی تعمیر کے لیے 400 سال قدیم مسجد کا ایک حصہ منہدم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق گجرات کے شہر احمد آباد میں ہندو توا کی حامی حکومت کی سربراہی میں سڑک کی تعمیر کے لیے 400 سال قدیم مغل دور حکومت کی منسا مسجد کا انہدام کیا جا رہا ہے۔ مسلمان جب عدالت گئے تو وہاں بھی انہیں انصاف نہ ملا۔رپورٹ کے مطابق احمد آباد کی میونسپل کارپوریشن ایک سڑک کی تعمیر کے لیے وہاں واقعہ مغل دور حکومت کی 400 سالہ قدیم منسا مسجد منہدم کرنا چاہتی ہے اور اس حوالے سے نوٹس بھی جاری کیا ہے۔مسجد انتظامیہ نے میونسپل کارپوریشن کے انہدام کے نوٹس کو گجرات ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اس حوالے سے کم از کم چار ہفتے کا وقت مانگا تھا۔بھارت، آشرم میں درجنوں طالبات سے زیادتی کا انکشافتاہم متعصب عدالت نے اسٹے دینے کے بجائے یہ کہہ کر پٹیشن خارج کر دی کہ مسجد کا جزوی انہدام عوامی فلاح کے منصوبے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس میں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔