لداخ میں تشدد کے بعد مسلسل چوتھے دن کرفیو جاری ہے۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہے اور سلامتی دستے چّپے چپّے پر نظر رکھ رہے ہیں۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے ایک دن پہلے قومی سلامتی قانون (این ایس اے) کے تحت سماجی کارکن سونم وانگچوک کو حراست میں لیے جانے کے بعد گشت اور جانچ تیز کر دی ہے۔ افسروں نے یہ جانکاری دی۔لداخ کی سڑکوں پر برسوں سے ایسا نظارہ نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک عجیب سی خاموشی نے اس شانت اور اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور علاقے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ دہائیوں میں پہلی بار ہوا ہے اور دفعہ 370 ہٹا کر لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنائے جانے کے بعد کا بھی پہلا بڑا واقعہ ہے۔دکانیں بند ہیں، سڑکیں سنسان ہیں، ریاست کے ذریعہ لگائے گئے کرفیو میں سلامتی دستوں کی موجودگی سے ماحول میں ایک عجیب قسم کا تناؤ ہے۔ بدھ کو چار لوگوں کی موت ہو گئی تھی، جن میں کرگل جنگ میں لداخ اسکاؤٹس کے ساتھ لڑ چکے ایک سابق فوجی بھی شامل تھے۔ 70 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے، جب بھیڑ بے قابو ہو گئی اور پولیس نے فائرنگ کی۔گرفتار سونم وانگچک کو جودھ پور جیل میں منتقل کیا گیا، 24 گھنٹے سی سی ٹی وی کی نگرانی کی جائے گیایک افسر نے بتایا کہ حساس علاقوں میں پولیس اور نیم فوجی دستوں نے گشت مزید تیز کر دی ہے۔ ساتھ ہی فرار لوگوں کو پکڑنے کے لیے چھاپہ ماری جاری ہے۔ افسر نے کہا کہ فرار لوگوں میں ایک کونسلر بھی شامل ہے جس نے مبینہ طور پر تشدد بھڑکانے کا کام کیا تھا۔جھڑپوں کے بعد 50 سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا گیا جبکہ کرگل سمیت مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے دیگر اہم شہروں میں بھی پانچ یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔جمعہ کو مرکز نے سماجی کارکن سونم وانگچوک کو ’اُکسانے والی تقریر‘ کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے بعد لداخ پولیس نے انہیں این ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا۔ انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی ہے، جس سے خبروں کی رفتار سست پڑ گئی ہے اور آگے کی کسی بھی بھیڑ کے جمع ہونے پر روک لگ گئی ہے۔