رواں سیزن کے آغاز سے ہی مشکلوں سے نبردآزما لداخ کے سیاحتی شعبے کو گزشتہ ہفتہ لیہہ میں ہوئے تشدد کے بعد کرفیو سے ایک اور جھٹکا لگا ہے۔ اسٹاک ہولڈرز کا کہنا ہے کہ 22 اپریل کو جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بڑے پیمانے پر بکنگ منسوخ ہونے سے صنعت کو شدید نقصان پہنچا تھا، لیکن اب لیہہ میں ہوئے تشدد کے بعد سیاحوں کا اعتماد مزید متزلزل ہو گیا ہے۔لیہہ اپیکس باڈی (ایل اے بی) میں شامل ایک ادارہ کی جانب سے بلائے گئے بند کے دوران تصادم کے بعد 24 ستمبر کو لیہہ شہر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ لیہہ اپیکس باڈی، لداخ کو ریاست کا درجہ دینے اور اسے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کے لیے تحریک کی قیادت کر رہا ہے۔ اس کی تحریک کے دوران ہوئے تشدد میں 4 لوگوں کی موت ہو گئی اور 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ ہفتہ کو دوپہر 2 مرحلوں میں 4 گھنٹے کی نرمی کو چھوڑ کر لیہہ میں پیر کو مسلسل چھٹے روز بھی کرفیو جاری رہا اور موبائل انٹرنیٹ خدمات بند رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحوں کے ذریعہ بکنگ منسوخ کی جانے لگی ہیں اور مقامی اسٹیک ہولڈرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایک ہوٹل کے منیجر نصیب سنگھ نے بتایا کہ ’’گزشتہ ایک ہفتہ سے ہمارے مہمانوں کے ذریعہ ایڈوانس بکنگ منسوخ کرنے کا سلسلہ تقریباً روزانہ جاری ہے۔ گزشتہ بدھ سے شہر بند ہونے کے سبب ضروری سامان کی کمی ہو گئی ہے۔‘‘ لیہہ شہر میں تقریباً ایک دہائی سے کام کر رہے نصیب سنگھ نے کہا کہ وہ اس پرامن علاقے میں پہلی بار ایسی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لداخ کی راجدھانی میں پھنسے سیاحوں کے ساتھ ساتھ انہیں بھی کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایک مقامی ٹرانسپورٹر رگزن دورجے نے کہا کہ اپریل میں پہلگام میں ہوئے حملے نے بھی لداخ کی سیاحت کو بری طرح سے متاثر کیا تھا، جبکہ دونوں (جموں و کشمیر اور لداخ) مرکز کے زیر انتظام الگ الگ خطے ہیں۔ پہلگام حملے میں 26 لوگ مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے بعد لداخ کا سیاحتی شعبہ تقریباً ختم ہو گیا تھا۔ اگرچہ آپریشن سندور کے ایک ماہ بعد ہی مہمانوں کا (پھر سے) آنا شروع ہو گیا تھا، لیکن بدھ کے واقعہ نے ایک بار پھر ہمیں مشکلوں میں ڈال دیا ہے۔‘‘واضح ہو کہ پہلگام حملے کے بعد بدلہ لینے، پاکستان اور مقبوضہ کشمیر (پی او کے) میں دہشت گردی کے ڈھانچوں کو تباہ کرنے کے لیے ہندوستانی مسلح افواج نے 7 مئی کو ’آپریشن سندور‘ چلایا تھا۔ رگزن دورجے کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے ایک مقامی ہوٹل والے نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ وہ لوگ جلد از جلد حالات کے معمول پر آنے کی دعاء کر رہے ہیں۔ کیونکہ غیر یقینی صورتحال سے سیاحت پر منحصر ہزاروں خاندانوں کی آمدنی کو کافی نقصان پہنچنے والا ہے۔لیہہ میں پھنسے سیاحوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ہوٹلوں تک ہی محدود ہیں اور اہم سیاحتی مقامات تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ تائیوان کی ایک سیاح شینا نے کہا کہ ’’یہاں پہنچنے پر مجھے یہ دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی کہ سب کچھ بند تھا۔ میں کرنسی بھی نہیں بدل پا رہی تھی اور نہ ہی کھانا خرید پا رہی تھی۔ میں پینگونگ جھیل جانے کا منصوبہ بنا رہی تھی، لیکن مجھے اجازت نہیں مل پائی۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی حالات بہتر ہو جائیں گے، تاکہ تمام لوگ کام پر لوٹ سکیں۔ ایک دیگر سیاح نے کہا کہ سنسان سڑکوں پر تعینات پولیس اہلکار لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ پابندیوں میں آج بھی نرمی نہیں کی جائے گی۔اتوار کو دہلی سے لیہہ پہنچی ارپنا داس نے کہا کہ بازار اور موبائل انٹرنیٹ خدمات بند دیکھ کر کافی مایوسی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے سبب ہم کہیں نہیں جا سکے اور امید ہے کہ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ایک دیگر سیاح شروتی نے کہا کہ وہ مقامی روایتوں کو جاننا چاہتی تھی، کچھ خریداری کرنا چاہتی تھی اور کچھ مشہور مقامات پر جانا چاہتی تھی، لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر یہ بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم لداخ کے پہاڑ اور مٹھ دیکھنے آئے تھے، لیکن اب ہم اپنے کمروں میں ہی بند ہیں۔ یہاں ہر کوئی بس یہی دعاء کر رہا ہے کہ جلد امن بحال ہو جائے۔ ایک پولیس افسر نے کرفیو کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مزید بدامنی کو روکنے کے لیے یہ ضروری تھا، لیکن امید ہے کہ یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔